عاشق ہرجائی
ہے عجب مجموعۂ اضداد اے اقبال تو
رونق ہنگامۂ محفل بھی ہے، تنہا بھی ہے
تيرے ہنگاموں سے اے ديوانہ رنگيں نوا!
زينت گلشن بھی ہے ، آرائش صحرا بھی ہے
ہم نشيں تاروں کا ہے تو رفعت پرواز سے
اے زميں فرسا ، قدم تيرا فلک پيما بھی ہے
عين شغل ميں پيشانی ہے تيری سجدہ ريز
کچھ ترے مسلک ميں رنگ مشرب مينا بھی ہے
مثل بوئے گل لباس رنگ سے عرياں ہے تو
ہے تو حکمت آفريں ، ليکن تجھے سودا بھی ہے
جانب منزل رواں بے نقش پا مانند موج
اور پھر افتادہ مثل ساحل دريا بھی ہے
حسن نسوانی ہے بجلی تيری فطرت کے ليے
پھر عجب يہ ہے کہ تيرا عشق بے پروا بھی ہے
تيری ہستی کا ہے آئين تفنن پر مدار
تو کبھی ايک آستانے پر جبيں فرسا بھی ہے ؟
ہے حسينوں ميں وفا نا آشنا تيرا خطاب
اے تلون کيش! تو مشہور بھی ، رسوا بھی ہے
لے کے آيا ہے جہاں ميں عادت سيماب تو
تيری بے تابی کے صدقے، ہے عجب بے تاب تو
(2)
عشق کی آشفتگی نے کر ديا صحرا جسے
مشت خاک ايسی نہاں زير قبا رکھتا ہوں ميں
ہيں ہزاروں اس کے پہلو ، رنگ ہر پہلو کا اور
سينے ميں ہيرا کوئی ترشا ہوا رکھتا ہوں ميں
دل نہيں شاعر کا ، ہے کيفيتوں کی رستخيز
کيا خبر تجھ کو درون سينہ کيا رکھتا ہوں ميں
آرزو ہر کيفيت ميں اک نئے جلوے کی ہے
مضطرب ہوں ، دل سکوں نا آشنا رکھتا ہوں ميں
گو حسين تازہ ہے ہر لحظہ مقصود نظر
حسن سے مضبوط پيمان وفا رکھتا ہوں ميں
بے نيازی سے ہے پيدا ميری فطرت کا نياز
سوز و ساز جستجو مثل صبا رکھتا ہوں ميں
موجب تسکيں تماشائے شرار جستہ اے
ہو نہيں سکتا کہ دل برق آشنا رکھتا ہوں ميں
ہر تقاضا عشق کی فطرت کا ہو جس سے خموش
آہ! وہ کامل تجلی مدعا رکھتا ہوں ميں
جستجو کل کی ليے پھرتی ہے اجزا ميں مجھے
حسن بے پاياں ہے ، درد لادوا رکھتا ہوں ميں
زندگی الفت کی درد انجاميوں سے ہے مری
عشق کو آزاد دستور وفا رکھتا ہوں ميں
سچ اگر پوچھے تو افلاس تخيل ہے وفا
دل ميں ہر دم اک نيا محشر بپا رکھتا ہوں ميں
فيض ساقی شبنم آسا ، ظرف دل دريا طلب
تشنۂ دائم ہوں آتش زير پا رکھتا ہوں ميں
مجھ کو پيدا کر کے اپنا نکتہ چيں پيدا کيا
نقش ہوں ، اپنے مصور سے گلا رکھتا ہوں ميں
محفل ہستی ميں جب ايسا تنک جلوہ تھا حسن
پھر تخيل کس ليے لا انتہا رکھتا ہوں ميں
در بيابان طلب پيوستہ می کوشيم ما
موج بحريم و شکست خويش بر دوشيم ما
No comments:
Post a Comment