گورستان شاہی
آسماں ، بادل کا پہنے خرقۂ ديرينہ ہے
کچھ مکدر سا جبين ماہ کا آئينہ ہے
چاندنی پھيکی ہے اس نظارۂ خاموش ميں
صبح صادق سو رہی ہے رات کی آغوش ميں
کس قدر اشجار کی حيرت فزا ہے خامشی
بربط قدرت کی دھيمی سی نوا ہے خامشی
باطن ہر ذرۂ عالم سراپا درد ہے
اور خاموشی لب ہستی پہ آہ سرد ہے
آہ! جولاں گاہ عالم گير يعنی وہ حصار
دوش پر اپنے اٹھائے سيکڑوں صديوں کا بار
زندگی سے تھا کبھی معمور ، اب سنسان ہے
يہ خموشی اس کے ہنگاموں کا گورستاں ہے
اپنے سکان کہن کی خاک کا دلدادہ ہے
کوہ کے سر پر مثال پاسباں استادہ ہے
ابر کے روزن سے وہ بالائے بام آسماں
ناظر عالم ہے نجم سبز فام آسماں
خاک بازی وسعت دنيا کا ہے منظر اسے
داستاں ناکامی انساں کی ہے ازبر اسے
ہے ازل سے يہ مسافر سوئے منزل جا رہا
آسماں سے انقلابوں کا تماشا ديکھتا
گو سکوں ممکن نہيں عالم ميں اختر کے ليے
فاتحہ خوانی کو يہ ٹھہرا ہے دم بھر کے ليے
رنگ و آب زندگی سے گل بدامن ہے زميں
سينکڑوں خوں گشتہ تہذيبوں کا مدفن ہے زميں
خواب گہ شاہوں کی ہے يہ منزل حسرت فزا
ديدۂ عبرت! خراج اشک گلگوں کر ادا
ہے تو گورستاں مگر يہ خاک گردوں پايہ ہے
آہ! اک برگشتہ قسمت قوم کا سرمايہ ہے
مقبروں کی شان حيرت آفريں ہے اس قدر
جنبش مژگاں سے ہے چشم تماشا کو حذر
کيفيت ايسی ہے ناکامی کی اس تصوير ميں
جو اتر سکتی نہيں آئينۂ تحرير ميں
سوتے ہيں خاموش ، آبادی کے ہنگاموں سے دور
مضطرب رکھتی تھی جن کو آرزوئے ناصبور
قبر کی ظلمت ميں ہے ان آفتابوں کی چمک
جن کے دروازوں پہ رہتا تھا جبيں گستر فلک
کيا يہی ہے ان شہنشاہوں کی عظمت کا مآل
جن کی تدبير جہاں بانی سے ڈرتا تھا زوال
رعب فغفوری ہو دنيا ميں کہ شان قيصری
ٹل نہيں سکتی غنيم موت کی يورش کبھی
بادشاہوں کی بھی کشت عمر کا حاصل ہے گور
جادہ عظمت کی گويا آخری منزل ہے گور
شورش بزم طرب کيا ، عود کی تقرير کيا
درد مندان جہاں کا نالۂ شب گير کيا
عرصۂ پيکار ميں ہنگامۂ شمشير کيا
خون کو گرمانے والا نعرۂ تکبير کيا
اب کوئی آواز سوتوں کو جگا سکتی نہيں
سينہ ويراں ميں جان رفتہ آ سکتی نہيں
روح ، مشت خاک ميں زحمت کش بيداد ہے
کوچہ گرد نے ہوا جس دم نفس ، فرياد ہے
زندگی انساں کی ہے مانند مرغ خوش نوا
شاخ پر بيٹھا ، کوئی دم چہچايا ، اڑ گيا
آہ! کيا آئے رياض دہر ميں ہم ، کيا گئے
زندگی کی شاخ سے پھوٹے ، کھلے ، مرجھا گئے
موت ہر شاہ و گدا کے خواب کی تعبير ہے
اس ستم گر کا ستم انصاف کی تصوير ہے
سلسلہ ہستی کا ہے اک بحر نا پيدا کنار
اور اس دريائے بے پاياں کے موجيں ہيں مزار
اے ہوس! خوں رو کہ ہے يہ زندگی بے اعتبار
يہ شرارے کا تبسم ، يہ خس آتش سوار
چاند ، جو صورت گر ہستی کا اک اعجاز ہے
پہنے سيمابی قبا محو خرام ناز ہے
چرخ بے انجم کی دہشت ناک وسعت ميں مگر
بے کسی اس کی کوئی ديکھے ذرا وقت سحر
اک ذرا سا ابر کا ٹکڑا ہے ، جو مہتاب تھا
آخری آنسو ٹپک جانے ميں ہو جس کی فنا
زندگی اقوام کی بھی ہے يونہی بے اعتبار
رنگ ہائے رفتہ کی تصوير ہے ان کی بہار
اس زياں خانے ميں کوئی ملت گردوں وقار
رہ نہيں سکتی ابد تک بار دوش روزگار
اس قدر قوموں کی بربادی سے ہے خوگر جہاں
ديکھتا بے اعتنائی سے ہے يہ منظر جہاں
ايک صورت پر نہيں رہتا کسی شے کو قرار
ذوق جدت سے ہے ترکيب مزاج روزگار
ہے نگين دہر کي زينت ہميشہ نام نو
مادر گيتی رہی آبستن اقوام نو
ہے ہزاروں قافلوں سے آشنا يہ رہ گزر
چشم کوہ نور نے ديکھے ہيں کتنے تاجور
مصر و بابل مٹ گئے باقی نشاں تک بھی نہيں
دفتر ہستی ميں ان کی داستاں تک بھی نہيں
آ دبايا مہر ايراں کو اجل کی شام نے
عظمت يونان و روما لوٹ لی ايام نے
آہ! مسلم بھی زمانے سے يونہی رخصت ہوا
آسماں سے ابر آذاری اٹھا ، برسا ، گيا
ہے رگ گل صبح کے اشکوں سے موتی کی لڑی
کوئی سورج کی کرن شبنم ميں ہے الجھی ہوئی
سينہ دريا شعاعوں کے ليے گہوارہ ہے
کس قدر پيارا لب جو مہر کا نظارہ ہے
محو زينت ہے صنوبر ، جوئبار آئينہ ہے
غنچہ گل کے ليے باد بہار آئينہ ہے
نعرہ زن رہتی ہے کوئل باغ کے کاشانے ميں
چشم انساں سے نہاں ، پتوں کے عزلت خانے ميں
اور بلبل ، مطرب رنگيں نوائے گلستاں
جس کے دم سے زندہ ہے گويا ہوائے گلستاں
عشق کے ہنگاموں کی اڑتی ہوئی تصوير ہے
خامہ قدرت کی کيسی شوخ يہ تحرير ہے
باغ ميں خاموش جلسے گلستاں زادوں کے ہيں
وادی کہسار ميں نعرے شباں زادوں کے ہيں
زندگی سے يہ پرانا خاک داں معمور ہے
موت ميں بھی زندگانی کی تڑپ مستور ہے
پتےاں پھولوں کی گرتی ہيں خزاں ميں اس طرح
دست طفل خفتہ سے رنگيں کھلونے جس طرح
اس نشاط آباد ميں گو عيش بے اندازہ ہے
ايک غم ، يعنی غم ملت ہميشہ تازہ ہے
دل ہمارے ياد عہد رفتہ سے خالی نہيں
اپنے شاہوں کو يہ امت بھولنے والی نہيں
اشک باری کے بہانے ہيں يہ اجڑے بام و در
گريہ پيہم سے بينا ہے ہماری چشم تر
دہر کو ديتے ہيں موتی ديدۂ گرياں کے ہم
آخری بادل ہيں اک گزرے ہوئے طوفاں کے ہم
ہيں ابھی صد ہا گہر اس ابر کی آغوش ميں
برق ابھی باقی ہے اس کے سينۂ خاموش ميں
وادی گل ، خاک صحرا کو بنا سکتا ہے يہ
خواب سے اميد دہقاں کو جگا سکتا ہے يہ
ہو چکا گو قوم کی شان جلالی کا ظہور
ہے مگر باقی ابھی شان جمالی کا ظہور
کچھ مکدر سا جبين ماہ کا آئينہ ہے
چاندنی پھيکی ہے اس نظارۂ خاموش ميں
صبح صادق سو رہی ہے رات کی آغوش ميں
کس قدر اشجار کی حيرت فزا ہے خامشی
بربط قدرت کی دھيمی سی نوا ہے خامشی
باطن ہر ذرۂ عالم سراپا درد ہے
اور خاموشی لب ہستی پہ آہ سرد ہے
آہ! جولاں گاہ عالم گير يعنی وہ حصار
دوش پر اپنے اٹھائے سيکڑوں صديوں کا بار
زندگی سے تھا کبھی معمور ، اب سنسان ہے
يہ خموشی اس کے ہنگاموں کا گورستاں ہے
اپنے سکان کہن کی خاک کا دلدادہ ہے
کوہ کے سر پر مثال پاسباں استادہ ہے
ابر کے روزن سے وہ بالائے بام آسماں
ناظر عالم ہے نجم سبز فام آسماں
خاک بازی وسعت دنيا کا ہے منظر اسے
داستاں ناکامی انساں کی ہے ازبر اسے
ہے ازل سے يہ مسافر سوئے منزل جا رہا
آسماں سے انقلابوں کا تماشا ديکھتا
گو سکوں ممکن نہيں عالم ميں اختر کے ليے
فاتحہ خوانی کو يہ ٹھہرا ہے دم بھر کے ليے
رنگ و آب زندگی سے گل بدامن ہے زميں
سينکڑوں خوں گشتہ تہذيبوں کا مدفن ہے زميں
خواب گہ شاہوں کی ہے يہ منزل حسرت فزا
ديدۂ عبرت! خراج اشک گلگوں کر ادا
ہے تو گورستاں مگر يہ خاک گردوں پايہ ہے
آہ! اک برگشتہ قسمت قوم کا سرمايہ ہے
مقبروں کی شان حيرت آفريں ہے اس قدر
جنبش مژگاں سے ہے چشم تماشا کو حذر
کيفيت ايسی ہے ناکامی کی اس تصوير ميں
جو اتر سکتی نہيں آئينۂ تحرير ميں
سوتے ہيں خاموش ، آبادی کے ہنگاموں سے دور
مضطرب رکھتی تھی جن کو آرزوئے ناصبور
قبر کی ظلمت ميں ہے ان آفتابوں کی چمک
جن کے دروازوں پہ رہتا تھا جبيں گستر فلک
کيا يہی ہے ان شہنشاہوں کی عظمت کا مآل
جن کی تدبير جہاں بانی سے ڈرتا تھا زوال
رعب فغفوری ہو دنيا ميں کہ شان قيصری
ٹل نہيں سکتی غنيم موت کی يورش کبھی
بادشاہوں کی بھی کشت عمر کا حاصل ہے گور
جادہ عظمت کی گويا آخری منزل ہے گور
شورش بزم طرب کيا ، عود کی تقرير کيا
درد مندان جہاں کا نالۂ شب گير کيا
عرصۂ پيکار ميں ہنگامۂ شمشير کيا
خون کو گرمانے والا نعرۂ تکبير کيا
اب کوئی آواز سوتوں کو جگا سکتی نہيں
سينہ ويراں ميں جان رفتہ آ سکتی نہيں
روح ، مشت خاک ميں زحمت کش بيداد ہے
کوچہ گرد نے ہوا جس دم نفس ، فرياد ہے
زندگی انساں کی ہے مانند مرغ خوش نوا
شاخ پر بيٹھا ، کوئی دم چہچايا ، اڑ گيا
آہ! کيا آئے رياض دہر ميں ہم ، کيا گئے
زندگی کی شاخ سے پھوٹے ، کھلے ، مرجھا گئے
موت ہر شاہ و گدا کے خواب کی تعبير ہے
اس ستم گر کا ستم انصاف کی تصوير ہے
سلسلہ ہستی کا ہے اک بحر نا پيدا کنار
اور اس دريائے بے پاياں کے موجيں ہيں مزار
اے ہوس! خوں رو کہ ہے يہ زندگی بے اعتبار
يہ شرارے کا تبسم ، يہ خس آتش سوار
چاند ، جو صورت گر ہستی کا اک اعجاز ہے
پہنے سيمابی قبا محو خرام ناز ہے
چرخ بے انجم کی دہشت ناک وسعت ميں مگر
بے کسی اس کی کوئی ديکھے ذرا وقت سحر
اک ذرا سا ابر کا ٹکڑا ہے ، جو مہتاب تھا
آخری آنسو ٹپک جانے ميں ہو جس کی فنا
زندگی اقوام کی بھی ہے يونہی بے اعتبار
رنگ ہائے رفتہ کی تصوير ہے ان کی بہار
اس زياں خانے ميں کوئی ملت گردوں وقار
رہ نہيں سکتی ابد تک بار دوش روزگار
اس قدر قوموں کی بربادی سے ہے خوگر جہاں
ديکھتا بے اعتنائی سے ہے يہ منظر جہاں
ايک صورت پر نہيں رہتا کسی شے کو قرار
ذوق جدت سے ہے ترکيب مزاج روزگار
ہے نگين دہر کي زينت ہميشہ نام نو
مادر گيتی رہی آبستن اقوام نو
ہے ہزاروں قافلوں سے آشنا يہ رہ گزر
چشم کوہ نور نے ديکھے ہيں کتنے تاجور
مصر و بابل مٹ گئے باقی نشاں تک بھی نہيں
دفتر ہستی ميں ان کی داستاں تک بھی نہيں
آ دبايا مہر ايراں کو اجل کی شام نے
عظمت يونان و روما لوٹ لی ايام نے
آہ! مسلم بھی زمانے سے يونہی رخصت ہوا
آسماں سے ابر آذاری اٹھا ، برسا ، گيا
ہے رگ گل صبح کے اشکوں سے موتی کی لڑی
کوئی سورج کی کرن شبنم ميں ہے الجھی ہوئی
سينہ دريا شعاعوں کے ليے گہوارہ ہے
کس قدر پيارا لب جو مہر کا نظارہ ہے
محو زينت ہے صنوبر ، جوئبار آئينہ ہے
غنچہ گل کے ليے باد بہار آئينہ ہے
نعرہ زن رہتی ہے کوئل باغ کے کاشانے ميں
چشم انساں سے نہاں ، پتوں کے عزلت خانے ميں
اور بلبل ، مطرب رنگيں نوائے گلستاں
جس کے دم سے زندہ ہے گويا ہوائے گلستاں
عشق کے ہنگاموں کی اڑتی ہوئی تصوير ہے
خامہ قدرت کی کيسی شوخ يہ تحرير ہے
باغ ميں خاموش جلسے گلستاں زادوں کے ہيں
وادی کہسار ميں نعرے شباں زادوں کے ہيں
زندگی سے يہ پرانا خاک داں معمور ہے
موت ميں بھی زندگانی کی تڑپ مستور ہے
پتےاں پھولوں کی گرتی ہيں خزاں ميں اس طرح
دست طفل خفتہ سے رنگيں کھلونے جس طرح
اس نشاط آباد ميں گو عيش بے اندازہ ہے
ايک غم ، يعنی غم ملت ہميشہ تازہ ہے
دل ہمارے ياد عہد رفتہ سے خالی نہيں
اپنے شاہوں کو يہ امت بھولنے والی نہيں
اشک باری کے بہانے ہيں يہ اجڑے بام و در
گريہ پيہم سے بينا ہے ہماری چشم تر
دہر کو ديتے ہيں موتی ديدۂ گرياں کے ہم
آخری بادل ہيں اک گزرے ہوئے طوفاں کے ہم
ہيں ابھی صد ہا گہر اس ابر کی آغوش ميں
برق ابھی باقی ہے اس کے سينۂ خاموش ميں
وادی گل ، خاک صحرا کو بنا سکتا ہے يہ
خواب سے اميد دہقاں کو جگا سکتا ہے يہ
ہو چکا گو قوم کی شان جلالی کا ظہور
ہے مگر باقی ابھی شان جمالی کا ظہور
No comments:
Post a Comment