حقيقتِ حسن
خدا سے حسن نے اک روز يہ سوال کيا
جہاں ميں کيوں نہ مجھے تو نے لازوال کيا
ملا جواب کہ تصوير خانہ ہے دنيا
شب دراز عدم کا فسانہ ہے دنيا
ہوئی ہے رنگ تغير سے جب نمود اس کی
وہی حسيں ہے حقيقت زوال ہے جس کی
کہيں قريب تھا ، يہ گفتگو قمر نے سنی
فلک پہ عام ہوئی ، اختر سحر نے سنی
سحر نے تارے سے سن کر سنائی شبنم کو
فلک کی بات بتا دی زميں کے محرم کو
بھر آئے پھول کے آنسو پيام شبنم سے
کلی کا ننھا سا دل خون ہو گيا غم سے
چمن سے روتا ہوا موسم بہار گيا
شباب سير کو آيا تھا ، سوگوار گيا
2 comments:
i want explanation of this poem
nope
Post a Comment