شمع اور شاعر
شاعر
دوش می گفتم بہ شمع منزل ويران خويش
گيسوے تو از پر پروانہ دارد شانہ اے
درجہاں مثل چراغ لالہ صحراستم
نے نصيب محفلے نے قسمت کاشانہ اے
مدتے مانند تو من ہم نفس می سوختم
در طواف شعلہ ام بالے نہ زد پروانہ اے
می تپد صد جلوہ در جان امل فرسودم ن
بر نمی خيزد ازيں محفل دل ديوانہ اے
از کجا ايں آتش عالم فروز اندوختی
کرمک بے مايہ را سوز کليم آموختی
شمع
مجھ کو جو موج نفس ديتی ہے پيغام اجل
لب اسی موج نفس سے ہے نوا پيرا ترا
ميں تو جلتی ہوں کہ ہے مضمر مری فطرت ميں سوز
تو فروزاں ہے کہ پروانوں کو ہو سودا ترا
گريہ ساماں ميں کہ ميرے دل ميں ہے طوفان اشک
شبنم افشاں تو کہ بزم گل ميں ہو چرچا ترا
گل بہ دامن ہے مری شب کے لہو سے ميری صبح
ہے ترے امروز سے نا آشنا فردا ترا
يوں تو روشن ہے مگر سوز دروں رکھتا نہيں
شعلہ ہے مثل چراغ لالۂ صحرا ترا
سوچ تو دل ميں ، لقب ساقی کا ہے زيبا تجھے؟
انجمن پياسی ہے اور پيمانہ بے صہبا ترا!
اور ہے تيرا شعار ، آئين ملت اور ہے
زشت روئی سے تری آئينہ ہے رسوا ترا
کعبہ پہلو ميں ہے اور سودائی بت خانہ ہے
کس قدر شوريدہ سر ہے شوق بے پروا ترا
قيس پيدا ہوں تری محفل ميں يہ ممکن نہيں
تنگ ہے صحرا ترا ، محمل ہے بے ليلا ترا
اے در تابندہ ، اے پروردۂ آغوش موج!
لذت طوفاں سے ہے نا آشنا دريا ترا
اب نوا پيرا ہے کيا ، گلشن ہوا برہم ترا
بے محل تيرا ترنم ، نغمہ بے موسم ترا
تھا جنھيں ذوق تماشا ، وہ تو رخصت ہو گئے
لے کے اب تو وعدہ ديدار عام آيا تو کيا
انجمن سے وہ پرانے شعلہ آشام اٹھ گئے
ساقيا! محفل ميں تو آتش بجام آيا تو کيا
آہ ، جب گلشن کی جمعيت پريشاں ہو چکی
پھول کو باد بہاری کا پيام آيا تو کيا
آخر شب ديد کے قابل تھی بسمل کی تڑپ
صبحدم کوئی اگر بالائے بام آيا تو کيا
بجھ گيا وہ شعلہ جو مقصود ہر پروانہ تھا
اب کوئی سودائی سوز تمام آيا تو کيا
پھول بے پروا ہيں ، تو گرم نوا ہو يا نہ ہو
کارواں بے حس ہے ، آواز درا ہو يا نہ ہو
شمع محفل ہو کے تو جب سوز سے خالی رہا
تيرے پروانے بھی اس لذت سے بيگانے رہے
رشتہ الفت ميں جب ان کو پرو سکتا تھا تو
پھر پريشاں کيوں تری تسبيح کے دانے رہے
شوق بے پروا گيا ، فکر فلک پيما گيا
تيری محفل ميں نہ ديوانے نہ فرزانے رہے
وہ جگر سوزی نہيں ، وہ شعلہ آشامی نہيں
فائدہ پھر کيا جو گرد شمع پروانے رہے
خير ، تو ساقی سہی ليکن پلائے گا کسے
اب نہ وہ مے کش رہے باقی نہ مے خانے رہے
رو رہی ہے آج اک ٹوٹی ہوئی مينا اسے
کل تلک گردش ميں جس ساقی کے پيمانے رہے
آج ہيں خاموش وہ دشت جنوں پرور جہاں
رقص ميں ليلی رہی ، ليلی کے ديوانے رہے
وائے ناکامی! متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زياں جاتا رہا
جن کے ہنگاموں سے تھے آباد ويرانے کبھی
شہر ان کے مٹ گئے آبادياں بن ہو گئيں
سطوت توحيد قائم جن نمازوں سے ہوئی
وہ نمازيں ہند ميں نذر برہمن ہو گئيں
دہر ميں عيش دوام آئيں کی پابندی سے ہے
موج کو آزادياں سامان شيون ہو گئيں
خود تجلی کو تمنا جن کے نظاروں کی تھی
وہ نگاہيں نا اميد نور ايمن ہوگئيں
اڑتی پھرتی تھيں ہزاروں بلبليں گلزار ميں
دل ميں کيا آئی کہ پابند نشيمن ہو گئيں
وسعت گردوں ميں تھی ان کی تڑپ نظارہ سوز
بجلياں آسودۂ دامان خرمن ہوگئيں
ديدہء خونبار ہو منت کش گلزار کيوں
اشک پيہم سے نگاہيں گل بہ دامن ہو گئيں
شام غم ليکن خبر ديتی ہے صبح عيد کی
ظلمت شب ميں نظر آئی کرن اميد کی
مژدہ اے پيمانہ بردار خمستان حجاز
بعد مدت کے ترے رندوں کو پھر آيا ہے ہوش
نقد خودداری بہائے بادۂ اغيار تھی
پھر دکاں تيری ہے لبريز صدائے نائو نوش
ٹوٹنے کو ہے طلسم ماہ سيمايان ہند
پھر سليمی کی نظر ديتی ہے پيغام خروش
پھر يہ غوغا ہے کہ لاساقی شراب خانہ ساز
دل کے ہنگامے مۓ مغرب نے کر ڈالے خموش
نغمہ پيرا ہو کہ يہ ہنگام خاموشی نہيں
ہے سحر کا آسماں خورشيد سے مينا بدوش
در غم ديگر بسوز و ديگراں را ہم بسوز
گفتمت روشن حديثے گر توانی دار گوش
کہہ گئے ہيں شاعری جزو يست از پيغمبری
ہاں سنا دے محفل ملت کو پيغام سروش
آنکھ کو بيدار کر دے وعدہ ديدار سے
زندہ کر دے دل کو سوز جوہر گفتار سے
رہزن ہمت ہوا ذوق تن آسانی ترا
بحر تھا صحرا ميں تو ، گلشن ميں مثل جو ہوا
اپنی اصليت پہ قائم تھا تو جمعيت بھی تھی
چھوڑ کر گل کو پريشاں کاروان بو ہوا
زندگی قطرے کی سکھلاتی ہے اسرار حيات
يہ کبھی گوہر ، کبھی شبنم ، کبھی آنسو ہوا
پھر کہيں سے اس کو پيدا کر ، بڑی دولت ہے يہ
زندگی کيسی جو دل بيگانۂ پہلو ہوا
فرد قائم ربط ملت سے ہے ، تنہا کچھ نہيں
موج ہے دريا ميں اور بيرون دريا کچھ نہيں
پردہ دل ميں محبت کو ابھی مستور رکھ
آبر باقی تری ملت کی جميعت ہے تھی
جب يہ جميعت گئی ، دنيا ميں رسوا تو ہوا
يعنی اپنی مے کو رسوا صورت مينا نہ کر
خيمہ زن ہو وادی سينا ميں مانند کليم
شعلہ تحقيق کو غارت گر کاشانہ کر
شمع کو بھی ہو ذرا معلوم انجام ستم
صرف تعمير سحر خاکستر پروانہ کر
تو اگر خود دار ہے ، منت کش ساقی نہ ہو
عين دريا ميں حباب آسا نگوں پيمانہ کر
کيفيت باقی پرانے کوہ و صحرا ميں نہيں
ہے جنوں تيرا نيا، پيدا نيا ويرانہ کر
خاک ميں تجھ کو مقدر نے ملايا ہے اگر
تو عصا افتاد سے پيدا مثال دانہ کر
ہاں ، اسی شاخ کہن پر پھر بنا لے آشياں
اہل گلشن کو شہيد نغمہ مستانہ کر
اس چمن ميں پيرو بلبل ہو يا تلميذ گل
يا سراپا نالہ بن جا يا نوا پيدا نہ کر
کيوں چمن ميں بے صدا مثل رم شبنم ہے تو
لب کشا ہو جا ، سرود بربط عالم ہے تو
آشنا اپنی حقيقت سے ہو اے دہقاں ذرا
دانہ تو ، کھيتی بھی تو ، باراں بھی تو ، حاصل بھی تو
آہ ، کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے
راہ تو ، رہرو بھی تو، رہبر بھی تو ، منزل بھی تو
کانپتا ہے دل ترا انديشۂ طوفاں سے کيا
ناخدا تو ، بحر تو ، کشتی بھی تو ، ساحل بھی تو
ديکھ آ کر کوچۂ چاک گريباں ميں کبھی
قيس تو، ليلی بھی تو ، صحرا بھی تو، محمل بھی تو
وائے نادانی کہ تو محتاج ساقی ہو گيا
مے بھی تو، مينا بھی تو، ساقی بھی تو، محفل بھی تو
شعلہ بن کر پھونک دے خاشاک غير اللہ کو
خوف باطل کيا کہ ہے غارت گر باطل بھی تو
بے خبر! تو جوہر آئينۂ ايام ہے
تو زمانے ميں خدا کا آخری پيغام ہے
اپنی اصليت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو
قطرہ ہے ، ليکن مثال بحر بے پاياں بھی ہے
کيوں گرفتار طلسم ہيچ مقداری ہے تو
ديکھ تو پوشيدہ تجھ ميں شوکت طوفاں بھی ہے
سينہ ہے تيرا اميں اس کے پيام ناز کا
جو نظام دہر ميں پيدا بھی ہے ، پنہاں بھی ہے
ہفت کشور جس سے ہو تسخير بے تيغ و تفنگ
تو اگر سمجھے تو تيرے پاس وہ ساماں بھی ہے
اب تلک شاہد ہے جس پر کوہ فاراں کا سکوت
اے تغافل پيشہ! تجھ کو ياد وہ پيماں بھی ہے ؟
تو ہي ناداں چند کليوں پر قناعت کر گيا
ورنہ گلشن ميں علاج تنگی داماں بھی ہے
دل کی کيفيت ہے پيدا پردۂ تقرير ميں
کسوت مينا ميں مے مستور بھی ، عرياں بھی ہے
پھونک ڈالا ہے مری آتش نوائی نے مجھے
اورميری زندگانی کا يہی ساماں بھی ہے
راز اس آتش نوائی کا مرے سينے ميں ديکھ
جلوہ تقدير ميرے دل کے آئينے ميں ديکھ
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئينہ پوش
اور ظلمت رات کی سيماب پا ہو جائے گی
اس قدر ہوگی ترنم آفريں باد بہار
نکہت خوابيدہ غنچے کی نوا ہو جائے گی
آمليں گے سينہ چاکان چمن سے سينہ چاک
بزم گل کی ہم نفس باد صبا ہو جائے گی
شبنم افشانی مری پيدا کرے گی سوز و ساز
اس چمن کی ہر کلی درد آشنا ہو جائے گی
ديکھ لو گے سطوت رفتار دريا کا مآل
موج مضطر ہی اسے زنجير پا ہو جائے گی
پھر دلوں کو ياد آ جائے گا پيغام سجود
پھر جبيں خاک حرم سے آشنا ہو جائے گی
نالۂ صياد سے ہوں گے نوا ساماں طيور
خون گلچيں سے کلی رنگيں قبا ہو جائے گی
آنکھ جو کچھ ديکھتی ہے ، لب پہ آ سکتا نہيں
محو حيرت ہوں کہ دنيا کيا سے کيا ہو جائے گی
شب گريزاں ہو گی آخر جلوہ خورشيد سے
يہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحيد سے
شاعر
دوش می گفتم بہ شمع منزل ويران خويش
گيسوے تو از پر پروانہ دارد شانہ اے
درجہاں مثل چراغ لالہ صحراستم
نے نصيب محفلے نے قسمت کاشانہ اے
مدتے مانند تو من ہم نفس می سوختم
در طواف شعلہ ام بالے نہ زد پروانہ اے
می تپد صد جلوہ در جان امل فرسودم ن
بر نمی خيزد ازيں محفل دل ديوانہ اے
از کجا ايں آتش عالم فروز اندوختی
کرمک بے مايہ را سوز کليم آموختی
شمع
مجھ کو جو موج نفس ديتی ہے پيغام اجل
لب اسی موج نفس سے ہے نوا پيرا ترا
ميں تو جلتی ہوں کہ ہے مضمر مری فطرت ميں سوز
تو فروزاں ہے کہ پروانوں کو ہو سودا ترا
گريہ ساماں ميں کہ ميرے دل ميں ہے طوفان اشک
شبنم افشاں تو کہ بزم گل ميں ہو چرچا ترا
گل بہ دامن ہے مری شب کے لہو سے ميری صبح
ہے ترے امروز سے نا آشنا فردا ترا
يوں تو روشن ہے مگر سوز دروں رکھتا نہيں
شعلہ ہے مثل چراغ لالۂ صحرا ترا
سوچ تو دل ميں ، لقب ساقی کا ہے زيبا تجھے؟
انجمن پياسی ہے اور پيمانہ بے صہبا ترا!
اور ہے تيرا شعار ، آئين ملت اور ہے
زشت روئی سے تری آئينہ ہے رسوا ترا
کعبہ پہلو ميں ہے اور سودائی بت خانہ ہے
کس قدر شوريدہ سر ہے شوق بے پروا ترا
قيس پيدا ہوں تری محفل ميں يہ ممکن نہيں
تنگ ہے صحرا ترا ، محمل ہے بے ليلا ترا
اے در تابندہ ، اے پروردۂ آغوش موج!
لذت طوفاں سے ہے نا آشنا دريا ترا
اب نوا پيرا ہے کيا ، گلشن ہوا برہم ترا
بے محل تيرا ترنم ، نغمہ بے موسم ترا
تھا جنھيں ذوق تماشا ، وہ تو رخصت ہو گئے
لے کے اب تو وعدہ ديدار عام آيا تو کيا
انجمن سے وہ پرانے شعلہ آشام اٹھ گئے
ساقيا! محفل ميں تو آتش بجام آيا تو کيا
آہ ، جب گلشن کی جمعيت پريشاں ہو چکی
پھول کو باد بہاری کا پيام آيا تو کيا
آخر شب ديد کے قابل تھی بسمل کی تڑپ
صبحدم کوئی اگر بالائے بام آيا تو کيا
بجھ گيا وہ شعلہ جو مقصود ہر پروانہ تھا
اب کوئی سودائی سوز تمام آيا تو کيا
پھول بے پروا ہيں ، تو گرم نوا ہو يا نہ ہو
کارواں بے حس ہے ، آواز درا ہو يا نہ ہو
شمع محفل ہو کے تو جب سوز سے خالی رہا
تيرے پروانے بھی اس لذت سے بيگانے رہے
رشتہ الفت ميں جب ان کو پرو سکتا تھا تو
پھر پريشاں کيوں تری تسبيح کے دانے رہے
شوق بے پروا گيا ، فکر فلک پيما گيا
تيری محفل ميں نہ ديوانے نہ فرزانے رہے
وہ جگر سوزی نہيں ، وہ شعلہ آشامی نہيں
فائدہ پھر کيا جو گرد شمع پروانے رہے
خير ، تو ساقی سہی ليکن پلائے گا کسے
اب نہ وہ مے کش رہے باقی نہ مے خانے رہے
رو رہی ہے آج اک ٹوٹی ہوئی مينا اسے
کل تلک گردش ميں جس ساقی کے پيمانے رہے
آج ہيں خاموش وہ دشت جنوں پرور جہاں
رقص ميں ليلی رہی ، ليلی کے ديوانے رہے
وائے ناکامی! متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زياں جاتا رہا
جن کے ہنگاموں سے تھے آباد ويرانے کبھی
شہر ان کے مٹ گئے آبادياں بن ہو گئيں
سطوت توحيد قائم جن نمازوں سے ہوئی
وہ نمازيں ہند ميں نذر برہمن ہو گئيں
دہر ميں عيش دوام آئيں کی پابندی سے ہے
موج کو آزادياں سامان شيون ہو گئيں
خود تجلی کو تمنا جن کے نظاروں کی تھی
وہ نگاہيں نا اميد نور ايمن ہوگئيں
اڑتی پھرتی تھيں ہزاروں بلبليں گلزار ميں
دل ميں کيا آئی کہ پابند نشيمن ہو گئيں
وسعت گردوں ميں تھی ان کی تڑپ نظارہ سوز
بجلياں آسودۂ دامان خرمن ہوگئيں
ديدہء خونبار ہو منت کش گلزار کيوں
اشک پيہم سے نگاہيں گل بہ دامن ہو گئيں
شام غم ليکن خبر ديتی ہے صبح عيد کی
ظلمت شب ميں نظر آئی کرن اميد کی
مژدہ اے پيمانہ بردار خمستان حجاز
بعد مدت کے ترے رندوں کو پھر آيا ہے ہوش
نقد خودداری بہائے بادۂ اغيار تھی
پھر دکاں تيری ہے لبريز صدائے نائو نوش
ٹوٹنے کو ہے طلسم ماہ سيمايان ہند
پھر سليمی کی نظر ديتی ہے پيغام خروش
پھر يہ غوغا ہے کہ لاساقی شراب خانہ ساز
دل کے ہنگامے مۓ مغرب نے کر ڈالے خموش
نغمہ پيرا ہو کہ يہ ہنگام خاموشی نہيں
ہے سحر کا آسماں خورشيد سے مينا بدوش
در غم ديگر بسوز و ديگراں را ہم بسوز
گفتمت روشن حديثے گر توانی دار گوش
کہہ گئے ہيں شاعری جزو يست از پيغمبری
ہاں سنا دے محفل ملت کو پيغام سروش
آنکھ کو بيدار کر دے وعدہ ديدار سے
زندہ کر دے دل کو سوز جوہر گفتار سے
رہزن ہمت ہوا ذوق تن آسانی ترا
بحر تھا صحرا ميں تو ، گلشن ميں مثل جو ہوا
اپنی اصليت پہ قائم تھا تو جمعيت بھی تھی
چھوڑ کر گل کو پريشاں کاروان بو ہوا
زندگی قطرے کی سکھلاتی ہے اسرار حيات
يہ کبھی گوہر ، کبھی شبنم ، کبھی آنسو ہوا
پھر کہيں سے اس کو پيدا کر ، بڑی دولت ہے يہ
زندگی کيسی جو دل بيگانۂ پہلو ہوا
فرد قائم ربط ملت سے ہے ، تنہا کچھ نہيں
موج ہے دريا ميں اور بيرون دريا کچھ نہيں
پردہ دل ميں محبت کو ابھی مستور رکھ
آبر باقی تری ملت کی جميعت ہے تھی
جب يہ جميعت گئی ، دنيا ميں رسوا تو ہوا
يعنی اپنی مے کو رسوا صورت مينا نہ کر
خيمہ زن ہو وادی سينا ميں مانند کليم
شعلہ تحقيق کو غارت گر کاشانہ کر
شمع کو بھی ہو ذرا معلوم انجام ستم
صرف تعمير سحر خاکستر پروانہ کر
تو اگر خود دار ہے ، منت کش ساقی نہ ہو
عين دريا ميں حباب آسا نگوں پيمانہ کر
کيفيت باقی پرانے کوہ و صحرا ميں نہيں
ہے جنوں تيرا نيا، پيدا نيا ويرانہ کر
خاک ميں تجھ کو مقدر نے ملايا ہے اگر
تو عصا افتاد سے پيدا مثال دانہ کر
ہاں ، اسی شاخ کہن پر پھر بنا لے آشياں
اہل گلشن کو شہيد نغمہ مستانہ کر
اس چمن ميں پيرو بلبل ہو يا تلميذ گل
يا سراپا نالہ بن جا يا نوا پيدا نہ کر
کيوں چمن ميں بے صدا مثل رم شبنم ہے تو
لب کشا ہو جا ، سرود بربط عالم ہے تو
آشنا اپنی حقيقت سے ہو اے دہقاں ذرا
دانہ تو ، کھيتی بھی تو ، باراں بھی تو ، حاصل بھی تو
آہ ، کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے
راہ تو ، رہرو بھی تو، رہبر بھی تو ، منزل بھی تو
کانپتا ہے دل ترا انديشۂ طوفاں سے کيا
ناخدا تو ، بحر تو ، کشتی بھی تو ، ساحل بھی تو
ديکھ آ کر کوچۂ چاک گريباں ميں کبھی
قيس تو، ليلی بھی تو ، صحرا بھی تو، محمل بھی تو
وائے نادانی کہ تو محتاج ساقی ہو گيا
مے بھی تو، مينا بھی تو، ساقی بھی تو، محفل بھی تو
شعلہ بن کر پھونک دے خاشاک غير اللہ کو
خوف باطل کيا کہ ہے غارت گر باطل بھی تو
بے خبر! تو جوہر آئينۂ ايام ہے
تو زمانے ميں خدا کا آخری پيغام ہے
اپنی اصليت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو
قطرہ ہے ، ليکن مثال بحر بے پاياں بھی ہے
کيوں گرفتار طلسم ہيچ مقداری ہے تو
ديکھ تو پوشيدہ تجھ ميں شوکت طوفاں بھی ہے
سينہ ہے تيرا اميں اس کے پيام ناز کا
جو نظام دہر ميں پيدا بھی ہے ، پنہاں بھی ہے
ہفت کشور جس سے ہو تسخير بے تيغ و تفنگ
تو اگر سمجھے تو تيرے پاس وہ ساماں بھی ہے
اب تلک شاہد ہے جس پر کوہ فاراں کا سکوت
اے تغافل پيشہ! تجھ کو ياد وہ پيماں بھی ہے ؟
تو ہي ناداں چند کليوں پر قناعت کر گيا
ورنہ گلشن ميں علاج تنگی داماں بھی ہے
دل کی کيفيت ہے پيدا پردۂ تقرير ميں
کسوت مينا ميں مے مستور بھی ، عرياں بھی ہے
پھونک ڈالا ہے مری آتش نوائی نے مجھے
اورميری زندگانی کا يہی ساماں بھی ہے
راز اس آتش نوائی کا مرے سينے ميں ديکھ
جلوہ تقدير ميرے دل کے آئينے ميں ديکھ
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئينہ پوش
اور ظلمت رات کی سيماب پا ہو جائے گی
اس قدر ہوگی ترنم آفريں باد بہار
نکہت خوابيدہ غنچے کی نوا ہو جائے گی
آمليں گے سينہ چاکان چمن سے سينہ چاک
بزم گل کی ہم نفس باد صبا ہو جائے گی
شبنم افشانی مری پيدا کرے گی سوز و ساز
اس چمن کی ہر کلی درد آشنا ہو جائے گی
ديکھ لو گے سطوت رفتار دريا کا مآل
موج مضطر ہی اسے زنجير پا ہو جائے گی
پھر دلوں کو ياد آ جائے گا پيغام سجود
پھر جبيں خاک حرم سے آشنا ہو جائے گی
نالۂ صياد سے ہوں گے نوا ساماں طيور
خون گلچيں سے کلی رنگيں قبا ہو جائے گی
آنکھ جو کچھ ديکھتی ہے ، لب پہ آ سکتا نہيں
محو حيرت ہوں کہ دنيا کيا سے کيا ہو جائے گی
شب گريزاں ہو گی آخر جلوہ خورشيد سے
يہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحيد سے
No comments:
Post a Comment