اثر کرے نہ کرے ، سن تو لے مری فرياد
اثر کرے نہ کرے ، سن تو لے مری فري
اثر کرے نہ کرے ، سن تو لے مری فري
ادنہيں ہے داد کا طالب يہ بندۂ آزاد
يہ مشت خاک ، يہ صرصر ، يہ وسعت افلاک
کرم ہے يا کہ ستم تيری لذت ايجاد
ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن ميں خيمۂ گليہی
ہے فصل بہاری ، يہی ہے باد مراد؟
قصور وار ، غريب الديار ہوں ليکن
ترا خرابہ فرشتے نہ کر سکے آباد
مری جفا طلبی کو دعائيں ديتا ہے
وہ دشت سادہ ، وہ تيرا جہان بے بنياد
خطر پسند طبيعت کو ساز گار نہيں
وہ گلستاں کہ جہاں گھات ميں نہ ہو صياد
مقام شوق ترے قدسيوں کے بس کا نہيں
انھی کا کام ہے يہ جن کے حوصلے ہيں زياد
1 comment:
owsem
Post a Comment