This is the last of the nine long poems in this book. Its position at about the end of the book and immediately after Khizar-i-Rah is not incidental. Many poems in the book express ‘Allamah lqbal’s frustration at the state of affairs in the Muslim world and the Muslim society in it. Khizar-i-Rah is the last such poem . Perusal of these poems creates some degree of frustration in the reader which is only temporary till he reads the next poem. tulu-i-lslam leaves the reader filled with lasting enthusiasm produced by the message of hope contained in it, as he finishes the serious part of the book.
The poem was written in the early 1920s soon after World War I, and deals with the aftermath of that war with respect to the Muslims. Though it deals with the defeat and dismemberment of the ‘Uthmaniyah Khilafah into small secular nation states and complete subjugation of these states by the Western Christian powers at the end of the war, it brings the good news of hope
This is the last of the nine long poems in this book. Its position at about the end of the book and immediately after Khizar-i-Rah is not incidental. Many poems in the book express ‘Allamah lqbal’s frustration at the state of affairs in the Muslim world and the Muslim society in it. Khizar-i-Rah is the last such poem . Perusal of these poems creates some degree of frustration in the reader which is only temporary till he reads the next poem. tulu-i-lslam leaves the reader filled with lasting enthusiasm produced by the message of hope contained in it, as he finishes the serious part of the book.
This is the last of the nine long poems in this book. Its position at about the end of the book and immediately after Khizar-i-Rah is not incidental. Many poems in the book express ‘Allamah lqbal’s frustration at the state of affairs in the Muslim world and the Muslim society in it. Khizar-i-Rah is the last such poem . Perusal of these poems creates some degree of frustration in the reader which is only temporary till he reads the next poem. tulu-i-lslam leaves the reader filled with lasting enthusiasm produced by the message of hope contained in it, as he finishes the serious part of the book.
The poem was written in the early 1920s soon after World War I, and deals with the aftermath of that war with respect to the Muslims. Though it deals with the defeat and dismemberment of the ‘Uthmaniyah Khilafah into small secular nation states and complete subjugation of these states by the Western Christian powers at the end of the war, it brings the good news of hope
and encouragement. It consists of nine stanzas, each with a different cadence and covers the following subjects:
and encouragement. It consists of nine stanzas, each with a different cadence and covers the following subjects:
1. The starting point and the leading theme is the reassuring thought that the time has come for re-awakening of the Muslim world and re-assertion of Islamic values.
2. In order to regain their past glories Muslims must:
(a) Recognize the elevated place of Man in the universe, which can be attained only by acquiring Islamic virtues, and appreciate the unity of mankind, which
is above race and color. This is also the essence of the teachings of the Holy
Qur'an as has been explained and documented at appropriate places earlier.
(b) Recognize their high destiny as the architect of the new world order.
(C) Review the degeneration of the
Muslim world, which has resulted from complaisance and ignoring the message of God in the Holy Qur’an.
Muslim world, which has resulted from complaisance and ignoring the message of God in the Holy Qur’an.
(d) Recognize the value of Iman and develop it in their lives.
(e) Work together in the struggle for establishment of a new world order of a united super-national millat instead of unconnected geographical nations.
3. Attention has been drawn to the ethical degeneration of the Western world and society to show the impropriety and inadequacy of their norms as guidelines for the Muslim world.
طلوع اسلام
(The Rennaisance of Islam)
دليل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
افق سے آفتاب ابھرا ،گيا دور گراں خوابی
عروق مردۂ مشرق ميں خون زندگی دوڑا
سمجھ سکتے نہيں اس راز کو سينا و فارابی
مسلماں کو مسلماں کر ديا طوفان مغرب نے
تلاطم ہائے دريا ہی سے ہے گوہر کی سيرابی
عطا مومن کو پھر درگاہ حق سے ہونے والا ہے
شکوہ ترکمانی، ذہن ہندی، نطق اعرابی
اثر کچھ خواب کا غنچوں ميں باقی ہے تو اے بلبل
''نوا را تلخ تر می زن چو ذوق نغمہ کم يابی''
تڑپ صحن چمن ميں، آشياں ميں ، شاخساروں ميں
جدا پارے سے ہو سکتی نہيں تقدير سيمابی
وہ چشم پاک بيں کيوں زينت برگستواں ديکھے
نظر آتی ہے جس کو مرد غازی کی جگر تابی
ضمير لالہ ميں روشن چراغ آرزو کر دے
چمن کے ذرے ذرے کو شہيد جستجو کر دے
سرشک چشم مسلم ميں ہے نيساں کا اثر پيدا
خليل اللہ کے دريا ميں ہوں گے پھر گہر پيدا
کتاب ملت بيضا کی پھر شيرازہ بندی ہے
يہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پيدا
ربود آں ترک شيرازی دل تبريز و کابل را
صبا کرتی ہے بوئے گل سے اپنا ہم سفر پيدا
اگر عثمانيوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کيا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پيدا
جہاں بانی سے ہے دشوار تر کار جہاں بينی
جگر خوں ہو تو چشم دل ميں ہوتی ہے نظر پيدا
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن ميں ديدہ ور پيدا
نوا پيرا ہو اے بلبل کہ ہو تيرے ترنم سے
کبوتر کے تن نازک ميں شاہيں کا جگر پيدا
ترے سينے ميں ہے پوشيدہ راز زندگی کہہ دے
مسلماں سے حديث سوز و ساز زندگی کہہ دے
خدائے لم يزل کا دست قدرت تو، زباں تو ہے
يقيں پيدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے
پرے ہے چرخ نيلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گرد راہ ہوں، وہ کارواں تو ہے
مکاں فانی ، مکيں آنی، ازل تيرا، ابد تيرا
خدا کا آخری پيغام ہے تو، جاوداں تو ہے
حنا بند عروس لالہ ہے خون جگر تيرا
تری نسبت براہيمی ہے، معمار جہاں تو ہے
تری فطرت اميں ہے ممکنات زندگانی کی
جہاں کے جوہر مضمر کا گويا امتحاں تو ہے
جہان آب و گل سے عالم جاويد کی خاطر
نبوت ساتھ جس کو لے گئی وہ ارمغاں تو ہے
يہ نکتہ سرگزشت ملت بيضا سے ہے پيدا
کہ اقوام زمين ايشيا کا پاسباں تو ہے
سبق پھر پڑھ صداقت کا ، عدالت کا ، شجاعت کا
ليا جائے گا تجھ سے کام دنيا کی امامت کا
يہی مقصود فطرت ہے، يہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہاں گيری، محبت کی فراوانی
بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت ميں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی، نہ ايرانی، نہ افغانی
ميان شاخساراں صحبت مرغ چمن کب تک
ترے بازو ميں ہے پرواز شاہين قہستانی
گمان آباد ہستی ميں يقيں مرد مسلماں کا
بياباں کی شب تاريک ميں قنديل رہبانی
مٹايا قيصر و کسری کے استبداد کو جس نے
وہ کيا تھا، زور حيدر، فقر بوذر، صدق سلمانی
ہوئے احرار ملت جادہ پيما کس تجمل سے
تماشائی شگاف در سے ہيں صديوں کے زندانی
ثبات زندگی ايمان محکم سے ہے دنيا ميں
کہ المانی سے بھی پائندہ تر نکلا ہے تورانی
جب اس انگارئہ خاکی ميں ہوتا ہے يقيں پيدا
تو کر ليتا ہے يہ بال و پر روح الاميں پيدا
غلامی ميں نہ کام آتی ہيں شمشيريں نہ تدبيريں
جو ہو ذوق يقيں پيدا تو کٹ جاتی ہيں زنجيريں
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہيں تقديريں
ولايت ، پادشاہی ، علم اشيا کی جہاں گيری
يہ سب کيا ہيں، فقط اک نکتۂ ايماں کی تفسيريں
براہيمی نظر پيدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سينوں ميں بنا ليتی ہے تصويريں
تميز بندہ و آقا فساد آدميت ہے
حذر اے چيرہ دستاں! سخت ہيں فطرت کی تغريريں
حقيقت ايک ہے ہر شے کی، خاکی ہو کہ نوری ہو
لہو خورشيد کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چيريں
يقيں محکم، عمل پيہم، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی ميں ہيں يہ مردوں کی شمشيريں
چہ بايد مرد را طبع بلندے ، مشرب نابے
دل گرمے ، نگاہ پاک بينے ، جان بيتابے
عقابی شان سے جھپٹے تھے جو ، بے بال و پر نکلے
ستارے شام کے خون شفق ميں ڈوب کر نکلے
ہوئے مدفون دريا زير دريا تيرنے والے
طمانچے موج کے کھاتے تھے ، جو ، بن کر گہر نکلے
غبار رہ گزر ہيں، کيميا پر ناز تھا جن کو
جبينيں خاک پر رکھتے تھے جو، اکسير گر نکلے
ہمارا نرم رو قاصد پيام زندگی لايا
خبر ديتی تھيں جن کو بجلياں وہ بے خبر نکلے
حرم رسوا ہوا پير حرم کی کم نگاہی سے
جوانان تتاری کس قدر صاحب نظر نکلے
زميں سے نوريان آسماں پرواز کہتے تھے
يہ خاکی زندہ تر، پائندہ تر، تابندہ تر نکلے
جہاں ميں اہل ايماں صورت خورشيد جيتے ہيں
ادھر ڈوبے ، ادھر نکلے ادھر ڈوبے ، ادھر نکلے
يقيں افراد کا سرمايہ تعمير ملت ہے
يہی قوت ہے جو صورت گر تقدير ملت ہے
تو راز کن فکاں ہے، اپنی انکھوں پر عياں ہو جا
خودی کا راز داں ہو جا، خدا کا ترجماں ہو جا
ہوس نے کر ديا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو
اخوت کا بياں ہو جا، محبت کی زباں ہو جا
يہ ہندی، وہ خراسانی، يہ افغانی، وہ تورانی
تو اے شرمندئہ ساحل! اچھل کر بے کراں ہو جا
غبار آلودۂ رنگ ونسب ہيں بال و پر تيرے
تو اے مرغ حرم! اڑنے سے پہلے پرفشاں ہو جا
خودی ميں ڈوب جا غافل! يہ سر زندگانی ہے
نکل کر حلقہ شام و سحر سے جاوداں ہو جا
مصاف زندگی ميں سيرت فولاد پيدا کر
شبستان محبت ميں حرير و پرنياں ہو جا
گزر جا بن کے سيل تند رو کوہ و بياباں سے
گلستاں راہ ميں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہو جا
ترے علم و محبت کی نہيں ہے انتہا کوئی
نہيں ہے تجھ سے بڑھ کر ساز فطرت ميں نوا کوئی
ابھی تک آدمی صيد زبون شہرياری ہے
قيامت ہے کہ انساں نوع انساں کا شکاری ہے
نظر کو خيرہ کرتی ہے چمک تہذيب حاضر کی
يہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ريزہ کاری ہے
وہ حکمت ناز تھا جس پر خرو مندان مغرب کو
ہوس کے پنچہ خونيں ميں تيغ کارزاری ہے
تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہيں سکتا
جہاں ميں جس تمدن کی بنا سرمايہ داری ہے
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی، جہنم بھی
يہ خاکی اپنی فطرت ميں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
خروش آموز بلبل ہو ، گرہ غنچے کی وا کر دے
کہ تو اس گلستاں کے واسطے باد بہاری ہے
پھر اٹھی ايشيا کے دل سے چنگاری محبت کی
زميں جولاں گہ اطلس قبايان تتاری ہے
بيا پيدا خريدارست جان ناتوانے را
''پس از مدت گذار افتاد بر ما کاروانے را''
بيا ساقی نواے مرغ زار از شاخسار آمد
بہار آمد نگار آمد نگار آمد قرار آمد
کشيد ابر بہاری خيمہ اندر وادی و صحرا
صداے آبشاراں از فراز کوہسار آمد
سرت گردم تو ہم قانون پيشيں سازدہ ساقی
کہ خيل نغمہ پردازاں قطار اندر قطار آمد
کنار از زاہداں برگيروبے باکانہ ساغر کش
پس از مدت ازيں شاخ کہن بانگ ہزار آمد
بہ مشتاقاں حديث خواجہ بدر و حنين آور
تصرف ہاے پنہانش بچشمم آشکار آمد
دگر شاخ خليل از خون ما نم ناک می گرد
بيازار محبت نقد ما کامل عيار آمد
سر خاک شہيدے برگہاے لالہ می پاشم
کہ خونش با نہال ملت ما سازگار آمد
''بيا تا گل بيفشانيم و مے در ساغر اندازيم
فلک را سقف بشگافيم و طرح ديگر اندازيم
No comments:
Post a Comment