بچہ اور شمع
کيسی حيرانی ہے يہ اے طفلک پروانہ خو
شمع کے شعلوں کو گھڑيوں ديکھتا رہتا ہے تو
يہ مری آغوش ميں بيٹھے ہوئے جنبش ہے کيا
روشنی سے کيا بغل گيری ہے تيرا مدعا؟
اس نظارے سے ترا ننھا سا دل حيران ہے
يہ کسی ديکھی ہوئی شے کی مگر پہچان ہے
شمع اک شعلہ ہے ليکن تو سراپا نور ہے
آہ! اس محفل ميں يہ عرياں ہے تو مستور ہے
دست قدرت نے اسے کيا جانے کيوں عرياں کيا!
تجھ کو خاک تيرہ کے فانوس ميں پنہاں کيا
نور تيرا چھپ گيا زير نقاب آگہی
ہے غبار ديدۂ بينا حجاب آگہی
زندگانی جس کو کہتے ہيں فراموشی ہے يہ
خواب ہے، غفلت ہے، سرمستی ہے، بے ہوشی ہے يہ
محفل قدرت ہے اک دريائے بے پايان حسن
آنکھ اگر ديکھے تو ہر قطرے ميں ہے طوفان حسن
حسن ، کوہستاں کی ہيبت ناک خاموشی ميں ہے
مہر کی ضوگستری، شب کی سيہ پوشی ميں ہے
آسمان صبح کی آئينہ پوشی ميں ہے يہ
شام کی ظلمت، شفق کی گل فرو شی ميں ہے يہ
عظمت ديرينہ کے مٹتے ہوئے آثار ميں
طفلک ناآشنا کی کوشش گفتار ميں
ساکنان صحن گلشن کی ہم آوازی ميں ہے
ننھے ننھے طائروں کی آشياں سازی ميں ہے
چشمہ کہسار ميں ، دريا کی آزادی ميں حسن
شہر ميں، صحرا ميں، ويرانے ميں، آبادی ميں حسن
روح کو ليکن کسی گم گشتہ شے کی ہے ہوس
ورنہ اس صحرا ميں کيوں نالاں ہے يہ مثل جرس
حسن کے اس عام جلوے ميں بھی يہ بے تاب ہے
زندگی اس کی مثال ماہی بے آب ہے
No comments:
Post a Comment