التجائے مسافر
(بہ درگاہ حضرت محبوب الہی، دہلی)
فرشتے پڑھتے ہيں جس کو وہ نام ہے تيرا
بڑی جناب تری، فيض عام ہے تيرا
ستارے عشق کے تيری کشش سے ہيں قائم
نظام مہر کی صورت نظام ہے تيرا
تری لحد کی زيارت ہے زندگی دل کی
مسيح و خضر سے اونچا مقام ہے تيرا
نہاں ہے تيری محبت ميں رنگ محبوبی
بڑی ہے شان، بڑا احترام ہے تيرا
اگر سياہ دلم، داغ لالہ زار توام
و گر کشادہ جبينم، گل بہار توام
چمن کو چھوڑ کے نکلا ہوں مثل نکہت گل
ہوا ہے صبر کا منظور امتحاں مجھ کو
چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے
شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو
نظر ہے ابر کرم پر ، درخت صحرا ہوں
کيا خدا نے نہ محتاج باغباں مجھ کو
فلک نشيں صفت مہر ہوں زمانے ميں
تری دعا سے عطا ہو وہ نردباں مجھ کو
مقام ہم سفروں سے ہوا اس قدر آگے
کہ سمجھے منزل مقصود کارواں مجھ کو
مری زبان قلم سے کسی کا دل نہ دکھے
کسی سے شکوہ نہ ہو زير آسماں مجھ کو
دلوں کو چاک کرے مثل شانہ جس کا اثر
تری جناب سے ايسی ملے فغاں مجھ کو
بنايا تھا جسے چن چن کے خار و خس ميں نے
چمن ميں پھر نظر آئے وہ آشياں مجھ کو
پھر آ رکھوں قدم مادر و پدر پہ جبيں
کيا جنھوں نے محبت کا رازداں مجھ کو
وہ شمع بارگہ خاندان مرتضوی
رہے گا مثل حرم جس کا آستاں مجھ کو
نفس سے جس کے کھلی ميری آرزو کی کلی
بنايا جس کی مروت نے نکتہ داں مجھ کو
دعا يہ کر کہ خداوند آسمان و زميں
کرے پھر اس کی زيارت سے شادماں مجھ کو
وہ ميرا يوسف ثانی وہ شمع محفل عشق
ہوئی ہے جس کی اخوت قرار جاں مجھ کو
جلا کے جس کی محبت نے دفتر من و تو
ہوائے عيش ميں پالا، کيا جواں مجھ کو
رياض دہر ميں مانند گل رہے خنداں
کہ ہے عزيز تر از جاں وہ جان جاں مجھ کو
شگفتہ ہو کے کلی دل کی پھول ہو جائے
يہ التجائے مسافر قبول ہو جائے
فرشتے پڑھتے ہيں جس کو وہ نام ہے تيرا
بڑی جناب تری، فيض عام ہے تيرا
ستارے عشق کے تيری کشش سے ہيں قائم
نظام مہر کی صورت نظام ہے تيرا
تری لحد کی زيارت ہے زندگی دل کی
مسيح و خضر سے اونچا مقام ہے تيرا
نہاں ہے تيری محبت ميں رنگ محبوبی
بڑی ہے شان، بڑا احترام ہے تيرا
اگر سياہ دلم، داغ لالہ زار توام
و گر کشادہ جبينم، گل بہار توام
چمن کو چھوڑ کے نکلا ہوں مثل نکہت گل
ہوا ہے صبر کا منظور امتحاں مجھ کو
چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے
شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو
نظر ہے ابر کرم پر ، درخت صحرا ہوں
کيا خدا نے نہ محتاج باغباں مجھ کو
فلک نشيں صفت مہر ہوں زمانے ميں
تری دعا سے عطا ہو وہ نردباں مجھ کو
مقام ہم سفروں سے ہوا اس قدر آگے
کہ سمجھے منزل مقصود کارواں مجھ کو
مری زبان قلم سے کسی کا دل نہ دکھے
کسی سے شکوہ نہ ہو زير آسماں مجھ کو
دلوں کو چاک کرے مثل شانہ جس کا اثر
تری جناب سے ايسی ملے فغاں مجھ کو
بنايا تھا جسے چن چن کے خار و خس ميں نے
چمن ميں پھر نظر آئے وہ آشياں مجھ کو
پھر آ رکھوں قدم مادر و پدر پہ جبيں
کيا جنھوں نے محبت کا رازداں مجھ کو
وہ شمع بارگہ خاندان مرتضوی
رہے گا مثل حرم جس کا آستاں مجھ کو
نفس سے جس کے کھلی ميری آرزو کی کلی
بنايا جس کی مروت نے نکتہ داں مجھ کو
دعا يہ کر کہ خداوند آسمان و زميں
کرے پھر اس کی زيارت سے شادماں مجھ کو
وہ ميرا يوسف ثانی وہ شمع محفل عشق
ہوئی ہے جس کی اخوت قرار جاں مجھ کو
جلا کے جس کی محبت نے دفتر من و تو
ہوائے عيش ميں پالا، کيا جواں مجھ کو
رياض دہر ميں مانند گل رہے خنداں
کہ ہے عزيز تر از جاں وہ جان جاں مجھ کو
شگفتہ ہو کے کلی دل کی پھول ہو جائے
يہ التجائے مسافر قبول ہو جائے
No comments:
Post a Comment