صبح کا ستارہ
لطف ہمسايگی شمس و قمر کو چھوڑوں
اور اس خدمت پيغام سحر کو چھوڑوں
ميرے حق ميں تو نہيں تاروں کی بستی اچھی
اس بلندی سے زميں والوں کی پستی اچھی
آسماں کيا ، عدم آباد وطن ہے ميرا
صبح کا دامن صد چاک کفن ہے ميرا
ميری قسمت ميں ہے ہر روز کا مرنا جينا
ساقی موت کے ہاتھوں سے صبوحی پينا
نہ يہ خدمت، نہ يہ عزت، نہ يہ رفعت اچھی
اس گھڑی بھر کے چمکنے سے تو ظلمت اچھی
ميری قدرت ميں جو ہوتا، تو نہ اختر بنتا
قعر دريا ميں چمکتا ہوا گوہر بنتا
واں بھی موجوں کی کشاکش سے جو دل گھبراتا
چھوڑ کر بحر کہيں زيب گلو ہو جاتا
ہے چمکنے ميں مزا حسن کا زيور بن کر
زينت تاج سر بانوئے قيصر بن کر
ايک پتھر کے جو ٹکڑے کا نصيبا جاگا
خاتم دست سليماں کا نگيں بن کے رہا
ايسی چنروں کا مگر دہر ميں ہے کام شکست
ہے گہر ہائے گراں مايہ کا انجام شکست
زندگی وہ ہے کہ جو ہو نہ شناسائے اجل
کيا وہ جينا ہے کہ ہو جس ميں تقاضائے اجل
ہے يہ انجام اگر زينت عالم ہو کر
کيوں نہ گر جائو ں کسی پھول پہ شبنم ہو کر
کسی پيشانی کے افشاں کے ستاروں ميں رہوں
کس مظلوم کی آہوں کے شراروں ميں رہوں
اشک بن کر سرمژگاں سے اٹک جائوں ميں
کيوں نہ اس بيوی کی آنکھوں سے ٹپک جائوں ميں
جس کا شوہر ہو رواں، ہو کے زرہ ميں مستور
سوئے ميدان وغا ، حب وطن سے مجبور
ياس و اميد کا نظارہ جو دکھلاتی ہو
جس کی خاموشی سے تقرير بھی شرماتی ہو
جس کو شوہر کی رضا تاب شکيبائی دے
اور نگاہوں کو حيا طاقت گويائی دے
زرد ، رخصت کی گھڑی ، عارض گلگوں ہو جائے
کشش حسن غم ہجر سے افزوں ہو جائے
لاکھ وہ ضبط کرے پر ميں ٹپک ہی جائوں
ساغر ديدئہ پرنم سے چھلک ہی جائوں
خاک ميں مل کے حيات ابدی پا جائوں
عشق کا سوز زمانے کو دکھاتا جائوں
No comments:
Post a Comment