ستارہ
قمر کا خوف کہ ہے خطرۂ سحر تجھ کو
مآل حسن کی کيا مل گئی خبر تجھ کو؟
متاع نور کے لٹ جانے کا ہے ڈر تجھ کو
ہے کيا ہراس فنا صورت شرر تجھ کو؟
زميں سے دور ديا آسماں نے گھر تجھ کو
مثال ماہ اڑھائی قبائے زر تجھ کو
غضب ہے پھر تری ننھی سی جان ڈرتی ہے
تمام رات تری کانپتے گزرتی ہے
چمکنے والے مسافر! عجب يہ بستی ہے
جو اوج ايک کا ہے ، دوسرے کی پستی ہے
اجل ہے لاکھوں ستاروں کی اک ولادت مہر
فنا کی نيند مے زندگی کی مستی ہے
وداع غنچہ ميں ہے راز آفرينش گل
عدم ، عدم ہے کہ آئينہ دار ہستی ہے
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے ميں
ثبات ايک تغير کو ہے زمانے ميں
No comments:
Post a Comment