و صال
جستجو جس گل کی تڑپاتی تھی اے بلبل مجھے
خوبی قسمت سے آخر مل گيا وہ گل مجھے
خود تڑپتا تھا ، چمن والوں کو تڑپاتا تھا ميں
تجھ کو جب رنگيں نوا پاتا تھا ، شرماتا تھا ميں
ميرے پہلو ميں دل مضطر نہ تھا ، سيماب تھا
ارتکاب جرم الفت کے ليے بے تاب تھا
نامرادی محفل گل ميں مری مشہور تھی
صبح ميری آئنہ دار شب ديجور تھی
از نفس در سينۂ خوں گشتہ نشتر داشتم
زير خاموشی نہاں غوغائے محشر داشتم
اب تاثر کے جہاں ميں وہ پريشانی نہيں
اہل گلشن پر گراں ميری غزل خوانی نہيں
عشق کی گرمی سے شعلے بن گئے چھالے مرے
کھليتے ہيں بجليوں کے ساتھ اب نالے مرے
غازۂ الفت سے يہ خاک سيہ آئينہ ہے
اور آئينے ميں عکس ہمدم ديرينہ ہے
قيد ميں آيا تو حاصل مجھ کو آزادی ہوئی
دل کے لٹ جانے سے ميرے گھر کی آبادی ہوئی
ضو سے اس خورشيد کی اختر مرا تابندہ ہے
چاندنی جس کے غبار راہ سے شرمندہ ہے
يک نظر کر دی و آداب فنا آموختی
اے خنک روزے کہ خاشاک مراد وا سوختی
خوبی قسمت سے آخر مل گيا وہ گل مجھے
خود تڑپتا تھا ، چمن والوں کو تڑپاتا تھا ميں
تجھ کو جب رنگيں نوا پاتا تھا ، شرماتا تھا ميں
ميرے پہلو ميں دل مضطر نہ تھا ، سيماب تھا
ارتکاب جرم الفت کے ليے بے تاب تھا
نامرادی محفل گل ميں مری مشہور تھی
صبح ميری آئنہ دار شب ديجور تھی
از نفس در سينۂ خوں گشتہ نشتر داشتم
زير خاموشی نہاں غوغائے محشر داشتم
اب تاثر کے جہاں ميں وہ پريشانی نہيں
اہل گلشن پر گراں ميری غزل خوانی نہيں
عشق کی گرمی سے شعلے بن گئے چھالے مرے
کھليتے ہيں بجليوں کے ساتھ اب نالے مرے
غازۂ الفت سے يہ خاک سيہ آئينہ ہے
اور آئينے ميں عکس ہمدم ديرينہ ہے
قيد ميں آيا تو حاصل مجھ کو آزادی ہوئی
دل کے لٹ جانے سے ميرے گھر کی آبادی ہوئی
ضو سے اس خورشيد کی اختر مرا تابندہ ہے
چاندنی جس کے غبار راہ سے شرمندہ ہے
يک نظر کر دی و آداب فنا آموختی
اے خنک روزے کہ خاشاک مراد وا سوختی
No comments:
Post a Comment