کمال ترک نہيں آب و گل سے مہجوری
کمال ترک نہيں آب و گل سے مہجوری
کمال ترک ہے تسخير خاکی و نوری
ميں ايسے فقر سے اے اہل حلقہ باز آيا
تمھارا فقر ہے بے دولتی و رنجوری
نہ فقر کے ليے موزوں ، نہ سلطنت کے ليے
وہ قوم جس نے گنوايا متاع تيموری
سنے نہ ساقی مہوش تو اور بھی اچھا
عيار گرمی صحبت ہے حرف معذوری
حکيم و عارف و صوفی ، تمام مست ظہور
کسے خبر کہ تجلی ہے عين مستوری
وہ ملتفت ہوں تو کنج قفس بھی آزادی
نہ ہوں تو صحن چمن بھی مقام مجبوری
برا نہ مان ، ذرا آزما کے ديکھ اسے
فرنگ دل کی خرابی ، خرد کی معموری
No comments:
Post a Comment