پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
مجھ کو پھر نغموں پہ اکسانے لگا مرغ چمن
پھول ہيں صحرا ميں يا پرياں قطار اندر قطار
اودے اودے ، نيلے نيلے ، پيلے پيلے پيرہن
برگ گل پر رکھ گئی شبنم کا موتی باد صبح
اور چمکاتی ہے اس موتی کو سورج کی کرن
حسن بے پروا کو اپنی بے نقابی کے ليے
ہوں اگر شہروں سے بن پيارے تو شہر اچھے کہ بن
اپنے من ميں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر ميرا نہيں بنتا نہ بن ، اپنا تو بن
من کی دنيا ! من کی دنيا سوز و مستی ، جذب و شوق
تن کی دنيا! تن کی دنيا سود و سودا ، مکروفن
من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہيں
تن کی دولت چھاؤں ہے ، آتا ہے دھن جاتا ہے دھن
من کی دنيا ميں نہ پايا ميں نے افرنگی کا راج
من کی دنيا ميں نہ ديکھے ميں نے شيخ و برہمن
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی يہ بات
تو جھکا جب غير کے آگے ، نہ من تيرا نہ تن
No comments:
Post a Comment