Dr. Allama Muhammad Iqbal is the national poet of Pakistan. He was born on 9th November, 1877. This blog is about the life and poetry of Allama Iqbal. This Blog has the poerty of Iqbal in Urdu, Roman Urdu and English translation.

Tuesday, 11 September 2012

Sama Sakta Nahi Pehnaai....

سما سکتا نہيں پہنائے فطرت ميں مرا سودا



ا علےحضرت شہيد اميرالمومنين نادر شاہ غازی رحمتہ اللہ عليہ کے لطف و کرم سے نومبر1933ء ميں مصنف کو حکيم سنائی غزنوی رحمتہ اللہ عليہ کے مزار مقدس کی زيارت نصيب ہوئی - يہ چند افکار پريشاں جن ميں حکيم ہی کے ايک مشہور قصيدے کی پيروی کی گئی ہے ، اس روز سعيد کی يادگار ميں سپرد قلم کيے گئے-:


'ما از پے سنائی و عطار آمديم'


~~~~0~~~~

سما سکتا نہيں پہنائے فطرت ميں مرا سودا
غلط تھا اے جنوں شايد ترا اندازہ صحرا
خودی سے اس طلسم رنگ و بو کو توڑ سکتے ہيں
يہی توحيد تھی جس کو نہ تو سمجھا نہ ميں سمجھا
نگہ پيدا کر اے غافل تجلی عين فطرت ہے
کہ اپنی موج سے بيگانہ رہ سکتا نہيں دريا
رقابت علم و عرفاں ميں غلط بينی ہے منبر کی
کہ وہ حلاج کی سولی کو سمجھا ہے رقيب اپنا
خدا کے پاک بندوں کو حکومت ميں ، غلامی ميں
زرہ کوئی اگر محفوظ رکھتی ہے تو استغنا
نہ کر تقليد اے جبريل ميرے جذب و مستی کی
تن آساں عرشيوں کو ذکر و تسبيح و طواف اولی

~~~~0~~~~

بہت ديکھے ہيں ميں نے مشرق و مغرب کے ميخانے
يہاں ساقی نہيں پيدا ، وہاں بے ذوق ہے صہبا
نہ ايراں ميں رہے باقی ، نہ توراں ميں رہے باقی
وہ بندے فقر تھا جن کا ہلاک قيصر و کسری
يہی شيخ حرم ہے جو چرا کر بيچ کھاتا ہے
گليم بوذر و دلق اويس و چادر زہرا!
حضور حق ميں اسرافيل نے ميری شکايت کی
يہ بندہ وقت سے پہلے قيامت کر نہ دے برپا
ندا آئی کہ آشوب قيامت سے يہ کيا کم ہے
'1گرفتہ چينياں احرام و مکی خفتہ در بطحا '
لبالب شيشہ تہذيب حاضر ہے مے 'لا' سے
مگر ساقی کے ہاتھوں ميں نہيں پيمانہ 'الا'
دبا رکھا ہے اس کو زخمہ ور کی تيز دستی نے
بہت نيچے سروں ميں ہے ابھی يورپ کا واويلا
اسی دريا سے اٹھتی ہے وہ موج تند جولاں بھی
نہنگوں کے نشيمن جس سے ہوتے ہيں تہ و بالا


1 يہ مصرع حکيم سنائي کا ہے

~~~~0~~~~

غلامی کيا ہے ؟ ذوق حسن و زيبائی سے محرومی
جسے زيبا کہيں آزاد بندے ، ہے وہی زيبا
بھروسا کر نہيں سکتے غلاموں کی بصيرت پر
کہ دنيا ميں فقط مردان حر کی آنکھ ہے بينا
وہی ہے صاحب امروز جس نے اپنی ہمت سے
زمانے کے سمندر سے نکالا گوہر فردا
فرنگی شيشہ گر کے فن سے پتھر ہوگئے پانی
مری اکسير نے شيشے کو بخشی سختی خارا
رہے ہيں ، اور ہيں فرعون ميری گھات ميں اب تک
مگر کيا غم کہ ميری آستيں ميں ہے يد بيضا
وہ چنگاری خس و خاشاک سے کس طرح دب جائے
جسے حق نے کيا ہو نيستاں کے واسطے پيدا
محبت خويشتن بينی ، محبت خويشتن داری
محبت آستان قيصر و کسری سے بے پروا
عجب کيا رمہ و پرويں مرے نخچير ہو جائيں
'1کہ برفتراک صاحب دولتے بستم سر خود را'


1 يہ مصرع مرزا صائب کا ہے جس ميں ايک لفظی تغير کيا گيا

~~~~0~~~~

وہ دانائے سبل ، ختم الرسل ، مولائے کل جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سينا
نگاہ عشق و مستی ميں وہی اول ، وہی آخر
وہی قرآں ، وہی فرقاں ، وہی يسيں ، وہی طہ
سنائی کے ادب سے ميں نے غواصی نہ کی ورنہ
ابھی اس بحر ميں باقی ہيں لاکھوں لولوئے لالا

No comments:

Post a Comment