وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھا گيا ہے جنوں
وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھا گيا ہے جنوں
خدا مجھے نفس جبرئيل دے تو کہوں
ستارہ کيا مری تقدير کی خبر دے گا
وہ خود فراخی افلاک ميں ہے خوار و زبوں
حيات کيا ہے ، خيال و نظر کی مجذوبی
خودی کی موت ہے انديشہ ہائے گونا گوں
عجب مزا ہے ، مجھے لذت خودی دے کر
وہ چاہتے ہيں کہ ميں اپنے آپ ميں نہ رہوں
ضمير پاک و نگاہ بلند و مستی شوق
نہ مال و دولت قاروں ، نہ فکر افلاطوں
سبق ملا ہے يہ معراج مصطفی سے مجھے
کہ عالم بشريت کی زد ميں ہے گردوں
يہ کائنات ابھی ناتمام ہے شايد
کہ آرہی ہے دما دم صدائے 'کن فيکوں'
علاج آتش رومی کے سوز ميں ہے ترا
تری خرد پہ ہے غالب فرنگيوں کا فسوں
اسی کے فيض سے ميری نگاہ ہے روشن
اسی کے فيض سے ميرے سبو ميں ہے جيحوں
No comments:
Post a Comment